مرید ہندی اور پیر رومی
علامہ محمد اقبال اور مولانا جلال الدین رومی کے درمیان بڑا گہرا روحانی تعلق موجود ہے۔ علامہ اقبال خود کو مریدِ ہندی اور مولانا جلال الدین ر ومی کو پیر ِ رومی کہتے تھے۔ حکومتِ ترکی نے علامہ محمد اقبال کی اس گہری محبت کے اعتراف کے طور پر مولانا جلال الدین رومی کی قبر مبارک کے قریب پاکستان کے اس قومی شاعر کی ایک علامتی قبر بنا رکھی ہے جس پر یہ الفاظ کنندہ ہیں ’’پاکستان کے ملی شاعر علامہ محمد اقبال عزیز مرشدی حضرت مولانا‘‘۔ یہ علامتی قبر ساٹھ کی دہائی میں علامہ محمد اقبال کی مولانا جلال الدین رومی سے انسیت، دلی لگاؤ کی عکاسی کے طور پر بنائی گئی ۔ ترک باشندے بھی پاکستان کے قومی شاعر علامہ محمد اقبال سے بڑی گہری محبت کرتے ہیں۔ ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان، وزیراعظم احمد داؤد اولو اور کابینہ کی اکثریت علامہ محمد اقبال سے بڑی متاثر ہے۔ مرید ِہندی اور پیرِ رومی پر روشنی ڈالنے سے قبل مولانا جلال الدین رومی کے بارے میں مختصر سی معلومات فراہم کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں۔
شہر قونیہ سات ہزار سال قبلِ مسیح سے آباد چلا آرہا ہے۔ شہر کے مرکزی علاقے سے چھ کلومیٹر کے فاصلے پر ’’ قارا جا ہیوک‘‘ میں تانبے کے دور سے لے کر حطیطی دور تک بہت سی تہذیبوں نے جنم لیا۔ وقتا فوقتا قونیہ کی اہمیت میں کمی بھی آئی لیکن اسکندر اعظم کے سفر مشرق پر نکلنے سے اس شہر کی شان و شوکت پھر سے دوبالا ہوگئی۔ یہاں سے تین کلو میٹر ہی کے فاصلے پر سلطنت روم کے کھنڈرات بھی موجود ہیں۔ سلجوقی ترکوں کی جانب سے اس شہر کو بارہویں صدی میں دارالحکومت بنائے جانے کے بعد نئے دور کا آغاز ہوا اور شہر میں بڑی تعداد میں سلجوقی دور کے فنِ معماری کے شاہکار آج بھی اپنی عظمت رفتہ کو برقرا رکھے ہوئے ہیں۔ اسی دوران مفکر، عالم اور شاعر جلال الدین رومی کے والد نے بھی بلخ سے آکر یہاں پر آباد ہونے کا فیصلہ کیا۔ جلال الدین رومی کے والد بہا الدین ولَد جن کو سلطان العلما ء کے نام سے یاد کیا جاتا تھا نے یہ فیصلہ مکہ، مدینہ، دمشق اور دیگر علاقوں کی زیارت کرنے کے بعد سلطان کیکوباد کی دعوت پر کیا۔ مولانا رومی نے یہاں پر اپنے دور کے علما سے تعلیم حاصل کی۔ جب مولانا کے والد کا انتقال ہوا تو مولانا چوبیس برس کے تھے۔ ان کے والد کی وفات کے بعد والد کے دوست سید برہان الدین نے ان سے کہا ’’ جلال الدین علم میں تمہارا کوئی ثانی نہیں ہے ، تم ہی اپنے والد کے وارث بنو اور دنیا جہان کو اپنی روشنی سے منور کرو ‘‘۔ ان کی اس نصیحت کے بعد مولانا رومی نے وعظ دینا شروع کردیا اور اپنے والد کی مسند علم سنبھال لی۔
مولانا رومی کا مسجد اور مدرسے باقاعدگی سےآنے جانے کا سلسلہ شمس تبریزی کے ان کی زندگی میں داخل ہونے کے بعد ٹوٹا ۔ دونوں کی پہلی ملاقات اورآمنے سامنے آنے کے بارے میں کئی ایک روایات مشہور ہیں تاہم شمس تبریزی نے اپنی کتاب ’’ مقالات‘‘ میں اس ملاقات کا ذکر کچھ یوں کیا ہے ۔ ایک رات انہوں نے دعا کی ’’ اے خدا مجھے اپنے سچے اور کھرے دوستوں سے ملادے‘‘۔ اگلی رات انہوں نے خواب میں دیکھا کہ کوئی ان سے کہہ رہا ہے ’’ تمہاری ملاقات ایک پہنچے ہوئے بزرگ سے کروائی جائے گی‘‘ اس پر شمس تبریزی جلدی سے اٹھ کھڑے ہوئے اور پکار اٹھے ’’ کہاں ہیں وہ بزرگ؟ کہاں ہیں وہ ولی اللہ؟‘‘ اگلے روز خواب میں ان بزرگوں کو ملک روم میں دیکھا جس پر انہوں نے سرزمیں اناطولیہ کی طرف رخت سفر باندھا ۔ انہوں نے مولانا رومی کو قونیہ میں بڑی جدو جہد کے بعد ڈھونڈ نکالا اور پھر دونوں کی دوستی کے شہر بھر میں چرچے ہونے لگے لیکن یہ دوستی بعد میں خاندانی تنازع کی وجہ بنی جس پر شمس تبریزی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس شہر کو ترک کرنا پڑا۔ (اس بارے میں مختلف روایات پیش کی جاتی ہیں) مولانا رومی نے شمس تبریزی کے چلے جانے کے بعد ایک بار پھر اپنے آپ کو علم کے لئے وقف کردیا اور دولت علم کے ذخیرے کو گہرے فلسفۂ حیات میں مدغم کرلیا تھا۔ محافل اور مجالس میں ان کی کہی ہوئی ہر بات کو رقم کرلیا جاتا تھا ۔
مولانا کی مثنوی دنیا میں مقدس کتابوں کے بعد سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب کی حیثیت اختیار کرگئی ہے۔ مولانا کو دوسرے مفکرین سے منفرد بنانے والی ایک دیگر خصوصیت سوچ اور فن کا امتزاج ہے ۔ مولانا اشعار میں خیالات کے اظہار میں وزن اور قافیے کی رکاوٹ کے مخالف ہیں۔
اقبال نے مولانا رومی کو اپنا روحانی پیشوا تسلیم کیا ہے۔ مولانا رومی زاو یۂ وجدان کے بانی اور رہبر تسلیم کئے جاتے ہیں اور اقبال بھی وجدانی اہمیت کے قائل ہیں۔ اس لئے مولانا رومی کو وہ وجدانی تصور کے تحت اپنا مرشد اور پیر طریقت تسلیم کرتے ہیں۔
اقبال مولانا کے تصور عشق اور ان کی عملی شخصیت سے بہت متاثر تھے کیونکہ مولانا کے عشق میں بے عملی کی بجائے عمل کی حرکت و حرارت ہے۔ اقبال نے مولانا کے عشق کو اپنا مطمح نظر بنا لیا کیونکہ وہ ایسے عشق کو کرامت تصور کرتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں:
عشق کی مستی سے ہے پیکر گُل تابناک
عشق ہے صہبائے خام عشق ہے کاس الکرام
اقبال میں شخصیت کے تحفظ اور ارتقاء کی امنگ جگانے والے مولانا رومی ہی تھے۔ دوسری گول میز کانفرنس (لندن) سے اقبال مایوس ہوئے تو اس وقت بھی مولانا روم کے کلام نے انہیں سنبھالا اور مولانا رومی کی عظمت کا سکہ ان کے دل پر بٹھادیا
ہم خو گرِ محسوس ہیں ساحل کے خریدار
اک بحر پُر آشوب و پُر اسرار ہے رومی
اقبال نے جس قدر مولانا رومی کا اثر قبول کیا ہے ۔ اس قدر مشرق و مغرب کے کسی بھی مفکر یا شاعر کا اثر قبول نہیں کیا۔ انہیں غیر معمولی عقیدت اور داخلی ربط ہے۔ اقبال نے بال جبرائیل کی نظم مریدِ ہندی اور مرشد رومی میں خود کو مرید اور مولانا کو مرشد قرار دیا ہے۔
اقبال اور رومی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ’’ اگر رومی نے اقبال کی فکر کو چار چاند لگائے ہیں تو اقبال نے بھی رومی کے افکار ِ عالیہ کو بڑی عقیدت سے دنیا میں متعارف کروایا ہے۔ اقبال نے مولانا رومی سے استفادہ ہی نہیں کیا بلکہ ایک دبستان فکر رومی کی بنیادی رکھی ۔ اقبال اور رومی کے ہاں بہت سے نظریات مشترک ہیں ۔ اقبال کا نظریہ خودی جو اقبال کے کمال کی وجہ سے اس کا اپنا بن گیا۔ اس کے بنیادی تصورات بھی رومی کے ہاں ملتے ہیں۔ علامہ محمد اقبال جن کے بارے میں مولانا محمد علی جوہر نے مولانا عبدالماجد دریا ہادی کے نام ایک خط میں کہا تھا کہ:
’’خدا کی رحمت ہو اقبال پر تعلیم مولانا رومی کا اتمام کر رہا ہے‘‘۔
آخر میں صرف اتنا عرض کروں گا کہ مولانا رومی اور علامہ محمد اقبال نے ترکی اور پاکستان کے درمیان محبت کی بنیاد رکھ کر دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے اتنا قریب لاکھڑا کیا ہے کہ دنیا ان دونوں ممالک کی دوستی پر رشک کرتی نظر آتی ہے۔
منبع: urdu.alarabiya.net