حضرت مولانا جلال الدین محمد بلخی کی زندگی نامه

تاریخِ پیدائش : 604 ھ بلخ افغانستان
تاریخِ وفات : 670 ھ
مزار مبارک : قونیہ (ترکی)

جلال الدین نام، روم اور رومی تخلص، بلخ افغانستان میں پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم اپنے والدِ محترم شیخ بہاء الدین سے حاصل کی، جو اپنے وقت کے بڑے عالم تھے۔ مشہور بزرگ حضرت شمس تبریزؒ سے ملاقات ہوئی تو مولانا کی دنیا ہی بدل گئی۔ ایک درویش کی نگاہِ کیمیا تاثیر نے ہوش و خرد کی دنیا کو زیر و زبر کر دیا کہ مولانا جلال الدین رومیؒ بے اختیار پکار اٹھے ؎
مولوی ہرگز نہ شد مولائے روم
تا غلام شمس تبریزی نہ شد
“مثنوی مولانا رومؒ” کو دنیا کے ادبِ عالیہ میں ایک منفرد مقام حاصل ہے۔۔۔مگر شاعری کی کسی کتاب کو اس قدر احترام کی نظروں سے نہیں دیکھا جاتا۔
اپنے وقت کی دونوں سپر پاورز (ایران اور روم) اہلِ اسلام کے ہاتھوں شکست و بربادی سے دوچار ہو کر قصۂ پارینہ بن چکی تھیں اور ان کے مرثیہ خواں تک باقی نہیں رہے تھے۔ اللہ نے اپنے آخری رسولﷺ سے کیا ہوا وعدہ پورا کر دیا تھا کہ اہلِ ایمان صرف آخرت ہی میں کامیاب و کامران نہیں ہوں گے بلکہ دنیا میں بھی انہیں اقتدارِ اعلیٰ بخشا جائے گا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے مسلمانوں کا عروج اپنی انتہا کو پہنچ گیا۔ ساری دنیا کی دولت ان کے قدموں میں تھی اور بڑے بڑے تاج و تخت ان کی ٹھوکروں سے پامال ہو رہے تھے۔ کچھ لوگوں کو وہ زمانہ یاد آ رہا تھا، جب ایران کی فتح کے بعد مالِ غنیمت کے انبار دیکھ کر حضرت عمر فاروقؓ رو پڑے تھے اور سرِ دربار کسی شخص نے عرض کیا تھا۔
“امیر المومنین! انتہائی خوشی کے موقع پر آپ کی آنکھوں میں یہ آنسو؟”
جواب میں خلیفۂ ثانی نے فرمایا تھا۔ “میں اس لئے روتا ہوں کہ جہاں دولت کے قدم آتے ہیں، وہاں ایمان سلامت نہیں رہتا۔ اللہ تمہیں مال و زر کے فتنے سے محفوظ رکھے۔”
اور پھر ایسا ہی ہوا تھا۔ دنیا کے سارے خزانوں کی کنجیاں مسلمانوں کے ہاتھوں میں تھیں۔ عظیم الشان محل تعمیر کئے جا رہے تھے مگر کاشانۂ دل ویران ہوتا چلا جا رہا تھا۔ دیواروں میں قیمتی فانوس بھی آویزاں تھے مگر دماغوں کا اندھیرا بڑھتا جا رہا تھا۔ جس قوم کو اپنی نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم دیا گیا تھا، آج وہی قوم کنیزوں کے خوبصورت جسموں سے اپنے حرم سجا رہی تھی۔
پھر ایک دن بغداد کی شاہراہوں پر ایک مجذوب چیختا پھر رہا تھا۔ “لوگو! خدا کی نا فرمانیوں سے باز آ جاؤ۔ چنگ و رباب توڑ دو اور شراب کے ذخیرے نالیوں میں بہا دو۔۔۔ورنہ قدرت کا پیمانۂ برداشت چھلکنے والا ہے۔ عذاب کے دن گنے جا چکے ہیں، بس کچھ گھڑیاں باقی ہیں، ابھی توبہ کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔ سرکشی چھوڑ دو، نہیں تو تمہارے کاندھوں سے گردنوں کے بوجھ کم کر دیے جائیں گے، بڑا خون بہے گا، بڑی رسوائی ہو گی۔”
ہر گزرتے ہوئے لمحے کے ساتھ مجذوب کی لے تیز ہوتی جا رہی تھی۔ شروع میں لوگ اسے پاگل سمجھ کر ایک دلچسپ تماشے سے لطف اندوز ہوتے رہے مگر وہ دیوانہ تو بڑے پتے کی باتیں کر رہا تھا۔ بڑے خوفناک راز فاش کر رہا تھا۔ آخر عشرت کدوں میں رہنے والوں کو اس وحشی کے نعرے گراں گزرنے لگے۔ مجذوب سے کہا گیا کہ وہ نعرہ زنی بند کر دے۔ اس کی بے ہنگم آوازوں سے شرفاء کے سکون میں خلل پڑتا ہے۔ وہ کس عذاب کی باتیں کرتا ہے؟ عذاب ہمیں چھو بھی نہیں سکتا کہ ہم اہلِ ایمان ہیں۔ کئی بار تنبیہ کی گئی لیکن مجذوب نے اپنا چلن نہیں بدلا۔ وہ پریشاں بالوں اور بوسیدہ کپڑوں کے ساتھ ہر گلی کوچے میں چیختا پھر رہا تھا۔
“اے بے خبرو! سرخ آندھی آنے والی ہے۔ اس کے تیز جھونکوں میں تمہارے پتھروں کے مکان روئی کے تیز گالوں کی مانند اڑ جائیں گے۔ اب اس قہر سے تمہیں کوئی نہیں بچا سکتا۔ ہلاکت اور بربادی تمہارا مقدر ہو چکی ہے۔”
عیش و عشرت میں ڈوبے ہوئے لوگ موت کی خبریں سننے کے لئے تیار نہیں تھے۔ آخر معززینِ شہر نے مجذوب کی باتوں کو بد شگونی کی علامت قرار دے کر ایک سنگدلانہ حکم جاری کر دیا۔ اب وہ بے ضرر انسان جدھر جاتا لوگ اس پہ غلاظت پھینکتے تھے۔ مجذوب ان کی اس حرکت پہ قہقہے لگاتا تھا۔
“میرے جسم پہ گندگی کیا اچھالتے ہو۔ اپنے مسخ چہروں اور غلیظ لباسوں کی طرف دیکھو۔ عنقریب ان پر سیاہی ملی جانے والی ہے، اور کچھ دن خدا کے نظام کا مذاق اڑا لو۔ پھر وقت تمہارا اس طرح مذاق اڑائے گا کہ تم موت کو پکارو گے مگر موت بھی تمہیں قبول نہیں کرے گی۔”
اس کے بعد لوگ تشدد پر اتر آئے۔ مجذوب جہاں سے گزرتا تھا، جوان اور بچے اس پر پتھر برساتے تھے۔ لاغر اور نحیف جسم اپنے خون میں نہا گیا۔ بدمست انسانوں کے قہقہے بلند ہوئے۔ مجذوب بغداد کی ایک شاہراہ پر کھڑا لڑکھڑا رہا تھا۔ اس خوں رنگ تماشے دیکھنے کے لئے سینکڑوں انسان جمع ہو گئے تھے۔ مجذوب نے ہجوم کی طرف دیکھا اور بڑے اداس لہجے میں بولا۔
“کیا تم میں سے ایک شخص بھی ایسا نہیں ہے جو ان سنگدلوں کو منع کرے اور میری طرف آنے والے پتھروں کو روک لے؟”
مجذوب کی فریاد سن کر لوگوں کے قہقہے کچھ اور بلند ہو گئے۔ کسی نے سنگ باری کرنے والوں کو منع نہیں کیا۔ پورے مجمع کا ضمیر مر چکا تھا۔
“عذاب لکھا جا چکا۔” مجذوب آسمان کی طرف منہ اٹھا کر چیخا “لکھنے والے نے لوحِ محفوظ پر لکھ دیا۔ آگ، خون، موت، ذلت اور بربادی۔” پھر مجذوب نے بہتے ہوئے خون کو اپنے چہرے پہ مل لیا، چند پتھر اور برسے۔ مجذوب زمین پر گر پڑا۔
“مسخرا آسمان کی خبریں دیتا ہے۔” لوگ دیوانہ وار ہنس رہے تھے۔ “یہ خبر نہیں کہ خود اپنا کیا حال ہونے والا ہے؟” ایک مجبور انسان پہ مشقِ ستم کرنے کے بعد ہجوم منتشر ہو گیا، مجذوب کے جسم سے خون بہہ بہہ کر زمین پر جمتا رہا۔
آخر بغداد کے با ہوش شہریوں نے ایک دیوانے سے نجات حاصل کر لی، اس دن کے بعد پھر کسی نے مجذوب کو نہیں دیکھا۔ وہ اپنا کام ختم کر کے بہت دور جا چکا تھا۔
شہر کی فضائیں نغمہ بار تھیں۔ موسیقی کی پُر شور آوازوں نے گناہ کے خوابیدہ جذبوں کو بیدار کر دیا تھا، سیم تن بدنوں کے رقص نے جذبات کی دنیا میں وہ طوفان اٹھائے تھے کہ اہلِ دل اقتدار کی بینائی زائل ہو گئی تھی اور امراء اندھے ہو گئے تھے۔ سرحدی محافظوں کے بازو شل ہو گئے تھے اور تلواریں شاخِ گل کی مانند لہرا رہی تھیں۔
اور پھر اہلِ بغداد کو قہرِ خداوندی نے آ پکڑا۔ ہلاکو خان رات کے اندھیرے میں شمشیر بکف آگے بڑھ رہا تھا۔۔۔ اور عظیم الشان اسلامی سلطنت کے نگہبان ہاتھوں میں چنگ و رباب لئے ہوئے جھوم رہے تھے پھر ہر طرف فتنہ و فساد کی آگ بھڑک اٹھی۔ سنگِ سرخ سے بنے ہوئے سر بہ فلک محلات میں آگ لگی ہوئی تھی اور علم و حکمت کے ذخیرے سوکھی لکڑیوں کی طرح جل رہے تھے۔ شاندار تہذیب و تمدن کے آثار وحشیوں کے نیزوں کی زد پر تھے۔ ہلاکو خان کے سامنے عالمانہ تقریریں کرنے والے بے شمار تھے مگر وہ تلوار کے سوا کوئی زبان نہیں سمجھتا تھا۔ اس فتنۂ عظیم کو صرف جرات و شجاعت کے ہتھیاروں سے روکا جا سکتا تھا مگر مسلمان بہت پہلے ان ہتھیاروں کو زنگ آلود سمجھ کر اپنے اسلحہ خانوں میں دفن کر چکے تھے۔ اس لئے چنگیز خان کا سفاک پوتا مسلمانوں کے سروں کے مینار بنا رہا تھا اور اہلِ بغداد ایک درندے سے تہذیب و شائستگی کی زبان میں رحم و کرم کی بھیک مانگ رہے تھے۔ پھر یوں ہوا ؎
آگ اس گھر کو ایسی لگی کہ جو تھا جل گیا
اب ہلاکو خان کا رخ نیشا پور کی طرف تھا۔ یہاں بھی موت کی سرخ آندھی نے تباہی مچا دی۔ علم و حکمت کے کیسے کیسے تناور درخت جڑوں سے اکھڑ گئے، جن لوگوں نے کچھ دن پہلے بغداد کی شاہراہوں پہ ایک مجذوب کو چیختے ہوئے دیکھا تھا، آج انہیں اس پاگل انسان کی باتیں یاد آ رہی تھیں مگر وقت گزر چکا تھا۔ اچانک خبر آئی کہ تاتاریوں نے حضرت شیخ فرید الدین عطارؒ جیسے بزرگ کو بھی شہید کر دیا۔ معرفت کا یہ مینار کیا گرا کہ گھروں میں سہمے ہوئے مسلمان موت کے خوف سے کانپنے لگے۔ اب ان کے درمیان سے وہ شخص بھی اٹھ گیا تھا، جس کی دعائیں آسمان پر سنی جاتی تھیں۔
دوسری جانگداز خبر آئی کہ حضرت شیخ نجم الدین کبریٰؒ نے بھی جامِ شہادت پی لیا۔ اس طرح کہ آپ نے خانقاہ سے باہر آ کر آخری سانس تک ہلاکو کی فوج سے جنگ کی اور مرتے وقت اپنی قوم کو ایک ہی پیغام دیا کہ مکانوں کو چھوڑ کر میدانِ کار زار میں نکل آؤ۔ حضرت نجم الدین کبریٰؒ کی شہادت نے مسلمانوں کی امید کی آخری کرن بھی بجھا دی تھی۔ معرفت کے اس بلند ترین مینار کے زمین پر گرتے ہی زلزلہ آ گیا تھا اور ظلم و ستم کی رات مزید طویل ہو گئی تھی۔
خون کا سیلاب راستا بناتا ہوا مسلمانوں کے سر سبز و شاداب علاقوں سے گزر رہا تھا ، اب ہلاکو خان کے لہو آشام لشکر کا رخ روم کے شہر “قونیہ” کی جانب تھا۔ اس لشکر کی سالاری بیچو خان کو سونپی گئی تھی۔ بیچو خان نے اپنی فوجیں شہر کے چاروں طرف پھیلا دیں اور قونیہ کا مکمل محاصرہ کر لیا۔ چند روز تک تو اہلِ شہر کو خوف و دہشت کے سوا کسی تکلیف کا احساس نہیں ہوا مگر جب محاصرے نے طول پکڑا تو قونیہ کے باشندوں کا سامانِ رسد بند ہو گیا، جس سے ہر طرف بد حواسی پھیل گئی۔ اہلِ شہر میں مشورے ہونے لگے۔
کسی نے کہا۔ “بیچو خان سے مصالحت کی بات کی جائے اور اس کے مطالبات مان کر اس عذاب سے نجات حاصل کی جائے۔”
فوراً ہی دوسرے شخص نے جواب دیا۔ “ہلاکو خان مسلمانوں کے خون کا پیاسا ہے، وہ علی الاعلان خود کو خدا کا قہر کہتا ہے، اس کے نزدیک امن و عافیت جیسے الفاظ کوئی مفہوم نہیں رکھتے۔”
“پھر کیا ہو گا؟” ہر زبان پر ایک ہی سوال تھا۔ آخر جب تمام ذہن سوچتے سوچتے مفلوج ہو گئے تو امیروں کی محفل میں ایک پریشان حال شخص داخل ہوا۔ اس مفلس انسان کو دیکھ کر دولت مندوں کی پیشانیوں پر بل پڑ گئے مگر وہ لوگوں کے احساسات سے بے نیاز اندر چلا آیا اور بد مستوں کے درمیان کھڑے ہو کر با رعب لہجے میں کہنے لگا۔
“لوگو! تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اپنے ایک ہم مذہب کو دیکھ کر بد حواس ہو گئے ہو۔ میں تم سے بھیک مانگنے نہیں آیا کہ مجھے دیکھ کر تمہارے چہروں پر نفرت برسنے لگی ہے۔ اسی تنگ دلی اور بے ضمیری نے تمہیں یہ خوفناک دن دکھائے ہیں۔ تم اپنے عشرت کدوں میں شرابِ سرخ سے دل بہلاتے رہے اور مخلوقِ خدا اپنے خون میں نہاتی رہی۔ اب دولت کے یہ ذخیرے لے کر کہاں جاؤ گے کہ زمین تم پر تنگ ہو چکی ہے اور آسمان بہت دور ہے۔”
یہ کہہ کر وہ اجنبی کچھ دیر کے لئے خاموش ہو گیا۔ پوری محفل پر سکوتِ مرگ طاری تھا، ہر شخص کے چہرے سے ظاہر ہوتا تھا جیسے وہ نزع کی حالت میں گرفتار ہو۔
“میں تمہیں صرف یہ بتانے کے لئے آیا ہوں کہ اس قہرِ آسمانی کا بس ایک ہی علاج ہے۔” اجنبی نے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد کہا۔
“ہاں! ہاں! ہمیں بتاؤ۔” تمام امراء بیک زبان چیخے۔ “ہم اپنے سیم و زر کے سارے انبار لٹا دیں گے، خدا کے لئے ہمیں اس اذیت ناک صورت حال سے نجات دلاؤ۔ ہم گزرنے والے ہر لمحے کے ساتھ مرتے ہیں اور پھر دوسری ساعت میں جی اٹھتے ہیں۔ ہلاکو خان کی دہشت ہمیں وقت سے پہلے مار ڈالے گی۔” سب کے سب گداگروں کی طرح چیخ رہے تھے۔
“اس درویش کے پاس جاؤ جو تمہارے عشرت کدوں پر تھوک کر اپنی خانقاہ میں گوشہ نشین ہو گیا ہے۔” اجنبی نے نہایت تلخ لہجے میں کہا۔ اس کے ایک ایک لفظ سے اہلِ محفل کے لئے شدید نفرت کا اظہار ہو رہا تھا۔ “وہ تمہارے سیم و زر کے ذخیروں کا محتاج نہیں۔ وہ تو خود شہنشاہ ہے۔ ایسا شہنشاہ جس کے سامنے ہلاکو خان کے سپاہی بھی حقیر کیڑوں سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔ اس کے پاس جاؤ اگر وہ دعا کیلئے ہاتھ اٹھا دے تو ممکن ہے کہ تمہارے سروں پر آگ کے شعلوں کے بجائے ابرِ رحمت برس جائے۔ اللہ اس کی بہت سنتا ہے۔”
اجنبی کی باتیں سن کر اہلِ محفل بد حواسی کے عالم میں کھڑے ہو گئے۔ وہ اسی وقت درویش کے آستانے پہ حاضر ہونا چاہتے تھے۔
“سنو۔۔۔” اجنبی نے پکار کر کہا۔ “وہ آسانی سے نہیں مانے گا۔ اس کے دروازے پر بھکاریوں کی طرح جانا۔ وہ تمہاری قیمتی پوشاکوں اور زر نگار قباؤں سے نفرت کرتا ہے۔”
یہ کہہ کر اجنبی محفل سے نکل گیا۔ تھوڑی دور تک لوگوں نے اسے جاتے دیکھا اور پھر وہ اچانک نظروں سے غائب ہو گیا۔ تمام لوگ اس بات پر حیران تھے کہ وہ کون تھا؟ کیوں آیا تھا اور یکایک کہاں غائب ہو گیا؟ یہ ایک بڑا اہم واقعہ تھا مگر لوگوں کے پاس سوچنے کے لئے وقت نہیں تھا۔ وہ انسان ہی سہی لیکن فرشتۂ رحمت بن کر آیا تھا۔ اس نے آگ اور خون کے درمیان گھرے ہوئے لوگوں کو سلامتی کی راہ دکھائی تھی۔
اب قونیہ کے معززین اور شرفاء کی جماعت اس درویش کے آستانے کی طرف بڑھ رہی تھی۔ فاصلے ختم ہوئے، اجازت طلب کی گئی۔ درویش فطرتاً مہمان نواز تھا۔اس نے اپنے ہم وطنوں کو اندر بلا لیا۔ لوگ کانپتے قدموں سے درویش کے روبرو پہنچے، ان کی آنکھوں کی پتلیاں لرز رہی تھیں اور چہرے موت کے خوف سے زرد تھے۔بعض نے بڑی ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے آنے کا مقصد بیان کیا مگر اس طرح کہ ان کی آواز لرز رہی تھی۔
“میرے پاس کیوں آئے ہو؟” درویش نے بیزاری کے لہجے میں کہا۔ “اس کائنات میں میری کیا حیثیت ہے؟ تم اس کی بارگاہ میں کیوں نہیں گئے جو لوحِ محفوظ کا مالک ہے۔ جس کے ایک اشارے پر تقدیریں بنتی اور بگڑتی ہیں۔”
“شیخ! وہ ہماری نہیں سنتا۔” قونیہ کے امراء نے رقت آمیز لہجے میں کہا۔ “ہم بہت گناہ گار ہیں، ہمارے لئے درِ توبہ بند ہو چکا ہے۔”
“یہ سب غلط ہے۔” اگرچہ درویش کے ہونٹوں پہ ہر وقت ایک دلنواز تبسم نمایاں رہتا تھا مگر وہ قونیہ کے امراء کی بات سن کر یکایک غضب ناک ہو گیا۔ “کوئی نہیں جانتا کہ درِ توبہ کب بند ہو گا؟ جاؤ اسی کو پکارو! وہی اپنے بندوں کی سنتا ہے۔ اگر وہ نہیں سنے گا تو پھر اس کائنات میں کون سننے والا ہے؟”
امراء نے محسوس کر لیا کہ درویش اپنا دامن بچا رہا ہے۔ اجنبی نے انہیں پہلے ہی خبردار کر دیا تھا کہ درویش آسانی سے ان کی بات نہیں مانے گا۔ اس لئے وہ مزید گریہ و زاری کرنے لگے۔ “آسمان سے ہماری فریادوں کا جواب نہیں آتا۔ شیخ! ہم تیرے آستانے سے واپس نہیں جائیں گے اگر موت ہمارا مقدر بن چکی ہے تو پھر ہم تیرے قدموں میں مر جانا پسند کریں گے۔”
“تم نے دیکھا کہ شیخ فرید الدین عطارؒ شہید کر دئیے گئے۔ حضرت نجم الدین کبریٰؒ اپنے خون میں نہا کے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ میں تو ان کے قدموں کی خاک بھی نہیں ہوں۔ پھر تمہارے لئے کیسے دعا کروں۔؟ کیسے کیسے پارسا اس فتنۂ عظیم میں زندگی سے محروم ہو گئے۔ جب ان کی دعائیں قہرِ آسمانی کو نہ روک سکیں تو پھر میں کس شمار میں ہوں؟” درویش بڑے درد ناک لہجے میں اپنی عاجزی کا اظہار کر رہا تھا۔۔۔مگر لوگ اس کی بات سننے کے لئے تیار نہیں تھے۔ انہیں صرف اپنے جان و مال کی فکر تھی۔ وہ درویش کے سامنے بہت دیر تک گریہ و زاری کرتے رہے۔
آخر درویش مجبور ہو گیا۔ اس سے مخلوقِ خدا کی چیخیں نہیں سنی جاتی تھیں۔ وہ اٹھا اور اپنا مصلّیٰ لے کر خانقاہ سے نکل گیا۔ لوگوں نے بڑی حیرت سے درویش کے طرزِ عمل کو دیکھا۔ وہاں موجود ہر شخص یہی سمجھ رہا تھا کہ درویش ان کے شورِ فغاں سے تنگ آ کر خانقاہ کو چھوڑ کر چلا گیا ہے۔ پورے مجمع پر کچھ دیر کے لئے سکوتِ مرگ سا طاری رہا۔ پھر تمام لوگ خانقاہ سے باہر نکل آئے اور درویش کو دیکھنے لگے جو ساری دنیا سے بے نیاز تیز تیز قدموں کے ساتھ ایک سمت چلا جا رہا تھا۔
قونیہ کے تمام شرفاء اور امراء درویش کو خاموشی سے دیکھتے رہے مگر کسی میں اتنی ہمت نہ تھی کہ وہ اس کے پیچھے جاتے۔ بس درویش کے چند خادم بے قرار ہو کر اپنے مخدوم کے پیچھے بھاگے۔ ان کے لئے اس مردِ قلندر کا یہ انداز نا قابلِ فہم تھا۔ خادم درویش کے قریب پہنچ گئے مگر اس سے یہ پوچھنے کی جرات نہ کر سکے کہ وہ کہاں جا رہا ہے؟ درویش جس طرف سے بھی گزرتا تھا، کچھ لوگ اس کے ہمراہ ہو جاتے تھے۔۔۔مگر اس نے نظر اٹھا کر بھی ان کی طرف نہیں دیکھا۔
اب وہ شہر کی حدود سے باہر نکل آیا تھا۔ اس کے ہمراہ چلنے والے خوف سے لرزنے لگے۔ سامنے ہلاکو کے سپہ سالا بیچو خان کا لشکر نظر آ رہا تھا۔ درویش یکایک مڑا اور ان لوگوں سے سخت لہجے میں مخاطب ہوا۔
“تم اپنے گھروں کو واپس جاؤ۔ کیا یہ کوئی تماشا ہو رہا ہے؟ اس قہرِ آسمانی سے خدا کی پناہ مانگو۔” یہ کہہ کر درویش آگے بڑھا۔ اس کا انجانا سفر دوبارہ شروع ہو گیا تھا۔
ساتھ جانے والے اسی مقام پہ رک گئے جہاں اس نے ٹھہر جانے کا حکم دیا تھا۔ درویش آگے بڑھتا رہا یہاں تک کہ وہ منگول لشکر کے قریب تر ہوتا چلا گیا۔ تمام اہلِ شہر اور خادم جو اس وقت وہاں موجود تھے، خوف و دہشت سے کانپنے لگے۔ درویش کا ناتواں جسم منگول تیر اندازوں کے نشانے پر تھا۔ تاتاریوں کے ترکش سے نکلا ہوا ایک تیر بھی درویش کا کام تمام کر سکتا تھا۔۔۔مگر وہ مردِ خدا آج ہر شے سے بے نیاز تھا۔ اس کے قدم تیزی سے اٹھ رہے تھے پھر وہ قونیہ کے ان باشندوں کی نظروں سے اوجھل گیا جو اسے بیچو خان کے لشکر کی طرف بڑھتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔
فاصلے مزید کم ہو گئے۔ درویش ایک بلند ٹیلے پر چڑھنے لگا۔ اس ٹیلے کے دوسری طرف تاتاریوں کا لشکر خیمہ زن تھا۔ درویش چوٹی تک پہنچا پھر اس نے اپنے اطراف پر نظر ڈالی۔ دور تک منگول سپاہی بکھرے ہوئے تھے اور نگاہوں کے سامنے سپہ سالار بیچو خان کا خیمہ تھا، جو دوسرے خیموں سے زیادہ وسیع اور نمایاں نظر آ رہا تھا۔ درویش نے ٹیلے پر مصلّیٰ بچھا دیا۔ ایک لمحے کے لئے آسمان کی طرف دیکھا اور نماز کی نیت باندھ لی۔ ابھی چند ساعتیں بھی نہیں گزری تھیں کہ کسی تاتاری کی نظر درویش پر پڑی۔ اس نے اپنے دوسرے ساتھی سے کہا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے سینکڑوں منگول سپاہی درویش کی طرف متوجہ ہو گئے جہاں ایک مسلمان اپنے اللہ کی عبادت میں مشغول تھا۔ دشمن سپاہی اس کی عبادت کا مفہوم تو نہیں سمجھ سکے مگر انہیں یہ خیال ضرور ہوا کہ وہ کوئی مسلمان جاسوس ہے جو بیچو خان کے لشکر کی مخبری کرنے آیا ہے۔
اس خیال کے پیدا ہوتے ہی منگول سپاہیوں میں ہلچل مچ گئی۔ اگرچہ درویش تنہا تھا لیکن جنگی اصول کے مطابق اس کی موجودگی نہایت خطرناک تھی۔ سپاہیوں نے اپنے کاندھوں پر لٹکتی ہوئی کمانیں اتار لیں۔ برق رفتاری کے ساتھ تیر چڑھائے۔ پوری قوت کا مظاہرہ کیا مگر کوئی ایک کمان بھی نہ کھینچ سکی۔ تنگ آ کر سپاہیوں نے اپنے گھوڑوں کو استعمال کرنا چاہا تاکہ ٹیلے پر پہنچ کر مسلمان درویش کو تلواروں سے قتل کر ڈالیں لیکن اس وقت منگول سپاہیوں کی بے چارگی قابلِ دید تھی جب ان کے گھوڑے اپنی جگہ سے جنبش تک نہ کر سکے۔ تاتاریوں نے بے زبان جانوروں کو پیٹنا شروع کر دیا۔ فضاء میں گھوڑوں کی چیخیں بلند ہوتی رہیں مگر انہیں ایک قدم بھی آگے نہ بڑھایا جا سکا۔ بڑی عجیب صورتحال تھی۔ سارے لشکر میں ایک ہنگامہ سا برپا ہو گیا۔ سپاہیوں کا شور سن کر بیچو خان بھی اپنے خیمے سے باہر نکل آیا۔ سپاہیوں سے ان ہنگامے کا سبب دریافت کیا تو بے شمار انگلیاں ٹیلے کی طرف اٹھ گئیں جہاں درویش اب بھی اپنے خدا کے آگے ہاتھ باندھے کھڑا تھا۔
“یہ کیسی دیوانگی کی باتیں ہیں؟” بیچو خان نے چیخ کر کہا۔ “کوئی بھی ذی ہوش انسان تمہاری احمقانہ گفتگو پر یقین نہیں کر سکتا۔” یہ کہہ کر بیچو خان نے ایک سپاہی سے تیر کمان طلب کیا۔ وہ ایک ماہر تیر انداز تھا۔ ہلاکو کے پورے لشکر میں اس کی یہ صفت مشہور تھی۔ تمام سپاہی حیران و پریشان کھڑے بیچو خان کی طرف دیکھ رہے تھے۔ ان کی سانسیں رکی ہوئی تھیں اور ذہنوں میں ایک ہی خیال گردش کر رہا تھا کہ اگر منگول سپہ سالار مسلمان جاسوس کو ہلاک کرنے میں کامیاب ہو گیا تو پھر قیامت ٹوٹ پڑے گی۔ وہ اس کی وحشیانہ عادتوں سے واقف تھے۔
آخر بیچو خان نے اپنی کمان کھینچی اور ایک قہر آلود نظر ان سپاہیوں پہ ڈالی جن کا یہ دعویٰ تھا کہ وہ اپنی کمانیں کھینچنے سے عاجز رہے تھے۔ سپاہیوں کی جان پر بن آئی تھی اور اب انہیں اپنی موت صاف نظر آنے لگی تھی۔ بیچو خان نے پوری طاقت سے کمان کھینچی پھر فضاء میں ایک مخصوص آواز ابھری اور ترکش سے تیر چھوٹ گیا۔ منگول سپاہی پتھرائی ہوئی آنکھوں سے تیر کو دیکھ رہے تھے۔ چند ثانیوں کی بات تھی۔ تاتاریوں کا خیال تھا کہ دوسرے ہی لمحے مسلمان جاسوس کی لاش ٹیلے کی بلندیوں سے زمین کی پستیوں میں چلی جائے گی۔۔۔مگر ایسا نہیں ہوا۔ بیچو خان کا چھوڑا ہوا تیر درویش کے قریب سے نکل گیا۔ منگول سپہ سالار کا چہرہ احساسِ ندامت سے زرد ہو گیا۔ نشانہ چوک جانے پر وہ نا قابلِ بیان اذیت و کرب میں مبتلا تھا۔ شدید غضب کے عالم میں اس نے ترکش پر دوسرا تیر چڑھایا۔ اس بار کمان کو یہاں تک کھینچا کہ اس کے ٹوٹ جانے کا خطرہ پیدا ہو گیا۔ نشانہ درست ہوتے ہی بیچو خان نے تیر چھوڑ دیا۔۔۔مگر اس مرتبہ بھی وہی ہوا۔ تیر سیدھا نشانے پر تھا مگر درویش کے قریب پہنچتے ہی کٹ کر دوسری طرف نکل گیا۔ اس کے بعد سپہ سالا بیچو خان اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھا پھر اس نے مسلمان جاسوس پر تیروں کی بارش کر دی۔۔۔لیکن ایک تیر بھی درویش کے جسم کو نہ چھو سکا۔ انتہائی طیش کے عالم میں بیچو خان نے کمان اٹھا کر سپاہی کے سر پر دے ماری اور تیزی سے اپنے خیمے میں داخل ہو گیا۔ تلوار نکالی اور دوبارہ خیمے سے باہر آیا۔ وہ مسلمان جاسوس کو اپنے ہاتھ سے تہہِ تیغ کرنا چاہتا تھا۔ بیچو خان غضب ناک حالت میں آگے بڑھا مگر بمشکل تمام تھوڑی ہی دور جا سکا۔ اچانک منگول سپہ سالار کو محسوس ہوا جیسے زمین نے اس کے پاؤں پکڑ لئے ہوں۔۔۔وہ بہت دیر تک ہوا میں اپنی شمشیر لہراتا رہا۔ اس کے ہاتھ مسلسل گردش کر رہے تھے مگر ٹانگیں پتھر کی ہو کر رہ گئی تھیں۔ آخر وہ اپنی بے کسی پر رو پڑا۔ اس نے گھبرا کر سپاہیوں کی طرف دیکھا۔ سب کے سب سر جھکائے کھڑے تھے۔
“اے جادوگر! ہمیں معاف کر دے۔” اچانک بیچو خان کی تیز آواز فضاء میں گونجی۔ “ہم قونیہ کا محاصرہ اٹھا کر واپس جا رہے ہیں اے عظیم ساحر! ہمیں جانے دے کہ ہم غلطی سے تیرے علاقے میں آ گئے ہیں۔ ہماری بھول کو درگزر کر! بے شک! تو اس مملکت کا شہنشاہ ہے۔ ہمیں اجازت دے کہ ہم اپنے گھروں کو واپس لوٹ جائیں۔” منگول سپہ سالار بیچو خان اس طرح فریاد کر رہا تھا جیسے واقعتہً کسی طاقتور شہنشاہ سے رحم کی بھیک مانگ رہا ہو۔
ابھی بیچو خان کے الفاظ کی گونج باقی تھی کہ یکایک اس کے پیروں میں خون کی گردش بحال ہو گئی۔ منگول سپہ سالار نے اپنی تلوار نیچی کر لی اور سر جھکائے ہوئے خیمے میں واپس آ گیا۔ کچھ دیر پہلے جس شخص کو جاسوس کے نام سے پکارا جا رہا تھا، اب وہی بے اسلحہ و نہتا انسان فاتح ٹھہرا تھا۔۔۔اور بیچو خان جیسا طاقتور دشمن ناکام و نا مراد لوٹ رہا تھا۔ جب منگول سپاہی قونیہ کی حدود سے باہر نکل رہے تھے، اس وقت بیچو خان کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی۔ وہ اپنے فوجیوں سے کہہ رہا تھا۔
“گھوڑوں کی رفتار تیز کر دو۔ یہ پورا علاقہ جادو کے زیر اثر ہے۔ اس بوڑھے ساحر نے ہر چیز کو باندھ کر رکھ دیا ہے۔” ان الفاظ کے ادا ہوتے ہی گھوڑوں کی پشت پر تازیانے برسنے لگے۔ فضاء حیوانوں کی چیخوں سے گونجنے لگی۔ راستوں سے گرد و غبار اٹھا اور پھر فتنۂ ہلاکو کا نقیب کسی نا معلوم منزل کی طرف روانہ ہو گیا۔
شہر قونیہ کے باشندے بہت خوش تھے۔ ایک درویش کی دعاؤں کے سبب ان کے سروں سے عذابِ آسمانی ٹل گیا تھا۔ درویش اپنی خانقاہ کی طرف آیا تو انسانی ہجوم نے اسے گھیر لیا۔ لوگ اپنی عقیدت کا اظہار کرنے کے لئے اس کے ہاتھوں کو بوسہ دینا چاہتے تھے مگر وہ ان تمام رسموں سے بیزار تھا۔ اس نے انتہائی تلخ لہجے میں لوگوں کو مخاطب کیا۔
“اگر آج نا فرمانوں کی جماعت قہرِ خداوندی سے بچ گئی تو کل خیر نہیں۔ اس سے پہلے کہ درد ناک عذاب تمہیں آ پکڑے، اپنے گناہوں سے توبہ کر لو۔ بے خبروں کے لئے وقت کا ہر لمحہ رہزن ہے۔ اپنے ایمانوں کی حفاظت کرو ورنہ وقت کے بے رحم قزاق تمہارا سب سے قیمتی سرمایہ لوٹ کر لے جائیں گے۔” یہ کہہ کر درویش خانقاہ میں چلا گیا اور اندر سے دروازہ بند کر لیا۔
مریدوں اور خدمت گاروں نے سنا۔ وہ اپنے رب کے حضور ہچکیوں سے رو رہا تھا۔ “اے عزیز و جلیل! تو نے دنیا کے سامنے میری شرم رکھ لی ورنہ یہ گناہ گار تو رسوا ہو چلا تھا۔ اگر میں اپنی جان بھی نذر کر دوں تو تیرے اس احسان کا شکر ادا نہیں ہو سکتا۔”
جن کی دعاؤں کے سبب شہر قونیہ فتنۂ ہلاکو سے محفوظ رہا، وہ درویش مولانا جلال الدین رومیؒ تھے۔
(“اللہ کے سفیر” سے انتخاب)
ــ جاری ہے ــ

Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.